social media par gustakhana mawad ki tash heer

سوشل میڈیا اور صحافت۔۔

تحریر: راؤ عدنان۔۔

صحافت کا اصل مقصد ہماری دنیا کے مسائل کو کم کرنا تھا ،اسے ایسی خوبصورت جگہ بنانا تھاجو سب کے کام آ ئے اور سب کے رہنے کی جگہ ہولیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس کے مسائل ہماری اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہنوز باقی ہیں۔آ ج کی صحافت قلم سے کمپیوٹر تک کا سفر طے کرچکی ہے ، اس نے بہت کچھ برادشت بھی کیا ہے کبھی آ مریت اور کالے قوانین اس کا پیچھا کرتے رہے کبھی یہ ایجنسیوں اور حکومتوں کے زیر عتاب رہی،کبھی ورکرز کو قاتلانہ حملوں اور اغواءجیسی وارداتوں کا سامنا کرنا پڑا ،دفتر جلائے گئے ،نیوز پرنٹ ، پریس ایڈوائس اور سنسر شپ ہوتی رہی مگر پھر بھی بہادر لوگوں نے صحافت کے چراغ کوبجھنے نہ دیاور سامراجی ہتھکنڈے بھی اس کاکچھ نہ بگاڑ سکے۔جس طرح اتائی ڈاکٹر ہوتے ہیں اسی طرح اتائی صحافی بھی اس وقت ہر ”محاذ“پر سرگرم ہیں ۔رہی سہی کسر واٹس ایپ نے پوری کردی ہے ۔جس کے پاس جتنے زیادہ گروپ ہیں وہ اتنا بڑا ”صحافی“بنا پھرتا ہے۔اخبار شائع ہو نہ ہو ”واٹس ایپ “پر ضرور ”شائع“ہوتا ہے ۔اتائی صحافیوں میں زیادہ تر تعداد ”کرائم رپورٹرز“کی ہے جو لولی لنگڑی ،آڑھی ترچھی تحریر کو خبر کانام دے کر گروپ میں ڈال دیتے ہیںآج کل تو ویسے ہی ہر تیسرے شخص کو ”کرائم رپورٹر“بننے کا اتنا شوق ہے کہ اگر اتنا تعلیم یا کھیل میں ہوتا تو وہ اپنا اور ملک کا نام روشن کرتے ۔”کرائم رپورٹنگ“اسی لئے پرکشش مانی جاتی ہے کہ اس میں پولیس سے برابری کی سطح پر ”مذاکرات “ہوتے ہیں ،جوڑ توڑ ہوتا ہے ،جیب گرم ہوجاتی ہے ،یونیفارم والے جتنے پاپڑ بیل کر”کمائی“کرتے ہیں اس سے تھوڑی کم یا کبھی زیادہ ایک ”اتائی کرائم رپورٹر“بھی کرلیتاہے۔

صل صحافی تو وہ ہے جس کا اوڑھنا بچھونا صحافت ہے جس کا گھر صحافت کے مشاہرے سے چلتا ہو ،بچے قلم کی مشقت سے پالے جاتے ہوں ،صحت کے مسائل بھی تنخواہ میں سے ہی نمٹائے جاتے ہوں ،دوسری قسم کے صحافی پارٹ ٹائمر کہلاتے ہیں ان کا کاروباربھی چلتا ہے اور صحافت کا شوق بھی پورا ہوتا ہے،آخری قسم ان صحافیوں کی ہے جو شوقیہ یا بآسانی کمائی کے لئے رپورٹنگ کا لبادہ اوڑھتے ہیں ان کا اصل ہدف غیرقانونی کاموں میں اپنا حصہ وصول کرنا ہوتا ہے ۔سرکاری ونجی ادارے، پولیس افسران و دیگر مہذب شخصیات سے گذارش ہے کہ ایسے ”اتائی رپورٹرز“کو ”واٹس ایپ رپورٹرز“کہہ کر مخاطب کریں کیونکہ ان کا ”پلیٹ فارم“صرف واٹس ایپ ہے اور یہ سوشل میڈیا میں آتا ہے اور اس کا پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا سے کوئی تعلق نہیں۔

ایسے” سوشل میڈیا رپورٹرز“ ہیروئن، آئس اوردیگر منشیات کو کھلا عام فروخت کرنے کےلئے توسرگرم رہتے ہیں لیکن گٹکا اور مین پوری کے خلاف ”جہاد“کا اعلان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، تھانوں میں ایسے لوگ اکثر جعلی صحافیوں کہ روپ میں پولیس افسران کی توجہ چوروں اور ڈکیتوں سے بھی ہٹاکر رکھتے ہیں۔کچھ لفافہ صحافی جن کا کام صرف اپنی جیب گرم اور صحافت کو بدنام کرنا ہے ان کو خبر تک بنانا نہیں آتی یہ تو صرف پولیس افسران کو گمراہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر غلط اور بے بنیاد خبریں چلاتے ہیںاور اپنا ”حصہ“وصول کرتے ہیں ۔یہ لوگ گٹکا بیچنے والوں کوتو دھمکیاں دیتے ہیں کہ پیسے دو ورنہ سوشل میڈیا پر خبریں چلیں گی اتنے گروپوں میں خبر جائے گی اتنی بدنامی ہوگی ،کام خراب ہوگا اسی لئے بھلائی اسی میں ہے پیسے دو اور گٹکا بیچو۔لیکن یہ منشیات فروشوں کو ایسی دھمکی دیتے نظر نہیں آتے ،وہاں یہ ڈرتے ہیںاور انہیں خوف ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ”نقصان“نہ ہوجائے کیونکہ جب منشیات فروش پولیس پارٹیوں پر حملے کرتے ہیں تو ایسے لوگ گھر بیٹھے ہی ”خوفزدہ “ہوجاتے ہیں اور نتائج سے واقف بھی رہتے ہیں ایسے لوگ نڈر صحافت کے حوالے خوب دیتے ہیں لیکن عملی طور پر یہ ”زیرو“پر کھڑے ہوتے ہیں

صحافت جیسے مقدس پیشے کو بدنام کرنیوالے ایسے ” لفافہ صحافیوں“سے ان کی اصل شناخت طلب کی جائے ،ان کاسندھ انفارمیشن کا ایکریڈیشن کارڈ ،کراچی پریس کلب کی رکنیت ،کراچی یونین آف جرنلسٹ کی ممبر شپ کے بارے میں ضرور پوچھا جائے ،صرف واٹس ایپ پر آڑھی ترچھی خبریں ڈال کریہ خود کو”سینئر صحافی“ لکھنے لگتے ہیں۔

صحافی کے پاس کبھی اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ تھانوں میں جاکر پولیس افسران کے کمروں میں بیٹھ کر گٹکا ،منشیات اور دیگر جرائم کے ”مال غنیمت “میں سے اپنا حصہ طلب کریں ،پولیس افسران کا یہ فرض ہے کہ وہ ”جعلی صحافیوں “کے خلاف آپریشن کریں اور اس سلسلے میں سینئر صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کی مدد لیں ۔آج کے واٹس ایپ دور میں غلط معلومات کی روک تھام بھی بہت ضروری ہے ورنہ ایسے لوگ کل آپ کے لئے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔(بشکریہ قومی اخبار)

How to Write for Imran Junior website
How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں